Header Ads Widget

Responsive Advertisement

سگے بھائی نے سکسی بہن سے عشق کیاا ورچدائی کر ڈالی

 ماں نے کہا کہ مومل تو جو بھی کر بس گھر سے بھاگ جا میں انہیں اسقدرپریشان دیکھ کر گھبراگئی  اور وہ ماں جو مجھے برہنہ سر باہر نہیں نکلنے دیتی تھی آج اتنی بڑی بات کر رہی تھی اس سےپہلے کہ کچھ کہتی وہ خود ہی کہنے لگی کہ بیٹی تیرا باپ تجھے کارو کاری میں قتل کرنا چا ہتا ہےقتل کا سنکر میں ڈر گئی کہ آخر میرا جرم کیا ہے اور پھر ماں نے بتا یا کہ وہ لوگ صرف اسوجہ سے قتل کرنا چاہتے ہیں کہ تیری شادی کے بعد تو زمین میں حصہ دار نہ بن جائے

میں لاڑکانہ میں رہتی ہوں اور ہمارے سندھ میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں کہ محض زمین اپنے ہی پاس رکھنے کیلیئے لوگ اپنی بیٹیوں یا بہنوں کو کوئی بھی الزام لگاکر قتل کردیتے ہیں اورقانون سے بچنے کیلیئے غیرت کے نام پر قتل کردیتے ہیں اور اسے سندھ میں کاروکاری کہتےہیں

گوکہ میرا کسی لڑکے سے کوئی تعلق نہیں ہے جو مجھ پر ایسا الزام لگا دیا جائے لیکن ایسے مکروہ فعل کیلئے کسی بھی دوبے گناہوں کو ماردیا جاتاہے  ماں بتارہی تھی کہ انہوں نے اپنے کانوں سے یہ بات براہ راست سنی تھی کہ میرا باپ اپنے بھا ئی سے سب کچھ کہ رہا تھا میں حیدرآباد کے ایک میڈیکل کالج میں سیکنڈ ایر کی  سکسی طالبہ تھی

اور پورے کالج میں سکسی کے نام سے مشہور تھی میرا سکسی بدن میل اساتذہ کا لن بھی کھڑا کر دینے کے لیے کافی تھا اور میرے بڑے بڑے سکسی بوبز دیکھ کر ایک بار تو بوڑھے پرنسپل کو بھی جوش چڑھا گیا تھا اور اس نے میرے سارے مطالبات مان لیے تھے مجھے اپنے سکسی ہونے پہ فخر ہےاور میر ے ایک بڑے بھائی پیرل حیدرآباد میں ہی انجینیرنگ میں پڑھتے تھے

 ہمارا قاسم آباد حیدرآباد میں اپنا بنگلہ تھا جہاں ہم دونوں بھائی بہن رہتے بھی تھے اور گھر کے کام کاج کیلئے ملازم و ملا زمہ بھی تھی اس بنگلہ میں میرے والدین اور بھائی بھی کبھی کبھی رہتے تھے ورنہ عام طورپرلاڑکانہ ہی میں رہتے تھےماں نے بتایا کہ میرا بھائی بھی شاید باپ کا حامی ہے کہ زمین بچانے کیلئے مجھے کاری کردیا جائے جسکا مطلب کہ میں ہر طرف سےمایوس ہوں

میں ماں سے پوچھ رہی تھی کہ کہاں جاوں لیکن ماں کے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھامیرے بھائی اور باپ اور چچا وغیرہ سب ہی عیاش  اور سکسی لڑکیوں کے شوقین تھے اور تونہیں معلوم لیکن بھنگ اور شراب وغیرہ پیتے ہوئے تو میں نے بھی دیکھا تھا لیکن بھا ئی کبھی کبھار شوق میں بھنگ پیتا تھا  اسے کسی سکسی لڑکی سے جنون کی حد تک عشق تھا

مگر نام نہیں بتا تھا بس کہتا تھا کہ کچھ بھی ہو اس سے شادی نہیں ہوسکتی ماں سے مشورہ کرکے میں نے سوچا کہ فوری طورپر اپنے بھائی پیرل کے پاس چلی جاوں اور ماں کہتی تھی کہ پیسوں کی پرواہ نہ کرو اور کسی طرح ملک سے باہر چلی جاوں میں اسی دن حیدرآباد پیرل کےہاں آگئی جو کہ کوئی خاص بات نہیں تھی


وہ گھر پر نہیں تھا اور میں اس سے بھی خوف زدہ تھی کہ نہ جانے وہ بھی کہیں زمین کی خاطر مجھے کاری کا ارادہ  تو نہیں رکھتا ماں کو فون پر اپنے پہنچنے کی اطلاع دیدی اور یہی سوچا کہ کسی طرح ملک سے نکل جاوںرات کو پیرل بھا ئی بھی آگیا اور گھر والوں کی خیریت وغیرہ معلوم کرنے لگا اور پوچھنے لگا کہ میں اسقدر پریشان کیوں ہوں

میں نے یونہی طبیعت کا بہانا کردیا اور اپنے کمرےمیں چلی گئی ماں کی باتیں کانوں میں گونج رہی تھیں اور نہ تو نیند آرہی تھی اورنہ ہی ایک لمحہ کو سکون مل رہا تھا بس لگ رہا تھا کہ ہر شخص مجھے قتل کرنے کے درپے ہے بہت دیر تک نیند نہ آئی تو پیرل سے کہا کہ مجھے نیند کی گولیاں لاد ے اسکے پوچھنے پر بتادیا کہ بس لادو اور اس نے اپنے کمرے سے ہی لادی

 میں کمرے کا جائزہ لینے لگی ایک دراز کھلی تھی اس میں دیکھا تو کئی سکسی رسالے اور سکسی فلمیں پڑی تھیں شائد میرا بھائی ان کو یہاں رکھ کے بھول گیا تھا ورنہ میرے کمرے میں اس طرح کی سکسی چیزوں کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا

 تین چار گولیاں کھاکر میں سوگئی اور صبح اٹھی تو سر بہت بھاری تھا اور جسم بھی ٹوٹ رہا تھا ڈر کی وجہ سے نیند نہ جانے نیند کی گولیوں کے باوجود صحیح نہیں آئی تھی یا پھر کوئی اور وجہ تھی لیکن جسم میں جگہ جگہ درد تھا کہ جوکہ اس سے پہلے تو کبھی نہیں تھا نہا تے ہوئے جسم پر کئی جگہ نشانات تھے اور میں سمجھ گئی کہ ملازمہ نے میرا بستر کئی دنوں سے صاف نہیں کیا تھا سو کیڑے مکوڑوں نے کاٹ لیا ہوگا

ملازمہ سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اس نے ماں کے فون آنے پر ساری چادریں بدل دی تھیں میں نے اسے کہا کہ پھر کیسے یہ نشانات ہیں تو کہنے لگی کی پیرل سائیں سے پوچھ لو وہ رات کو آپکے پاس تھا تو سہی اس نے بتا یا کہ جب وہ اپنے گھر یعنی سرونٹ کوارٹر میں جارہی تھی تو پیرل میرے کمرے میں تھا یہ بات میرے لیئے حیران کن تھی لیکن شاید وہ میری گھبراہٹ کی وجہ سے فکرمند تھا

رات کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکرمیں نے حسب عادت شہد ملا دودھ پیا اور سوگئی اور صبح پھر وہی کیفیت تھی  وہی درد اور ویسے ہی نشانات اب تو فکر کی بات  تھی اور اتنی نا سمجھ نہیں تھی کہ جان نہ سکوں اور یقین تھا کہ میرے جسم سے کھیلا گیا ہے ملازمہ کا ایک نوجوان لڑکا بھی تھا جوکہ بہت آوارہ تھا مگر اسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی

ہاں کبھی کبھی پیرل اسے اپنے مساج کے لئیے بلالیتا تھا تعجب اس بات کا تھا کہ گزشتہ رات کو تو میں نے نیند کی گولیاں بھی نہیں کھائی تھیں پھر اگر کچھ ہوا تھا تو مجھے معلوم کیوں نہ ہوا سارادن کالج لائیبریری میں باہر ملکوں کی یونیورسٹی میں داخلہ کی کوشش کرتی رہی کہ میں نے ملک سے فرار ہونے کا فیصلہ کرلیاتھا


پیرل سے میں نے ابھی بات نہیں کی تھی اور نہ ہی کوئی ارادہ تھا دوتین دن تک میں سوتے ہوئے محتاط رہی اور کچھ بھی نہ ہوا رات کھانا پیرل کے ساتھ کھالیا توملازمہ برتن وغیرہ سمیٹ کر چلی گئی اور دودھ دینا شاید بھول گئی پیرل نے کہا کہ تم کمرے میں جاومیں دودھ لادونگا میں اپنے کمرے کے واش روم میں چلی گئی اور واپسی پر ڈائینگ ٹیبل پرموبائل لینے گئی اور کمرےمیں آتے ہوئے کچن کی طرف دیکھا تو پیرل دودہ میں شہد ملا رہا تھا

میں نے سوچا کہ خود لے لوں اور اچانک میں چونک گئی  یہ دیکھ کرمیرےگلاس کے ساتھ  ہی میز پر نیند کی گولیوں کے خالی خول پڑے ہوئے تھے جو کہ اس نے میرے گلاس میں ہی ڈالا تھا میں ششدر رہ گئی کہ کیا میرا سگا بھائی میرے  ساتھ سکسی کھیل  رچا رہا تھا اور سکسی بدن کےساتھ اور اس سے آگے سوچنا بھی نفرت انگیز تھا

پورے گھر میں مجھے سب سے زیادہ پیار کرنے والا اور خیال کرنے والا وہی تھا اور ایک بات کا یقین تھا کہ وہ مجھے کبھی کاری نہیں ہونے دیگا مگر پیسہ بڑی کتی چیز ہوتی ہے لیکن وہ اسقدر گھٹیا بھی نہیں ہوسکتا کہ میرے ساتھ اس بات کا بھی کامل یقین تھا اس نے دودھ لاکرمجھےدیا اور اپنے کمرےمیں چلا گیا معلوم نہیں تھا کہ اس نے میرے گلاس میں گولیاں ملائی ہیں یا خود ہی لی ہیں

جو کبھی کبھار وہ لیتا تھا میں نے دودہ نہیں پیا اور اسے ایک اور گلاس میں ڈال کر چھپا دیا اور سونے کو لیٹ گئی  جسم و روح کانپ رہی تھی اور  میرا سکسی بدن لرز رہاتھی اور دعا کررہی تھی کہ سب کچھ غلط ہو میں کروٹیں بدل رہی تھی اسطرح کہ انگاروں پر لوٹ رہی ہوں کئی گھنٹے گزرگئے اور کمرے کی تاریکی سے خوف آرہا تھا

اور پھر کمرے کا دروازہ کھلا اور اسکے قد سے اندازہ ہوگیا کہ وہ بھائی ہی تھا اس نے مومل مومل آواز دی اور خاموش رہی کہ جیسے سو ئی ہوئی ہوں وہ میرے بیڈ پر آگیا اور میرے پیروں کو ہلاکر یقین کررہا تھا کہ میں جاگ تو نہیں رہی

میرے سونے کا یقین کرنے کے بعد اس نے میرے  سکسی گالوں کوپیارکرنا شروع کردیا کوئی شک کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ میرا سگا بھائی اپنے سگی چھوٹی  سکسی بہن کوپیارکررہا ہے

اسے نیند کی گولیاں کھلا کر میں چپ رہی یا زندہ درگور ہوگئی کہ بھائی اسقدر کمینہ بھی ہوسکتا ہے میرے  رسیلے سکسی ہونٹوں کو چوس رہا تھا اور سکسی جوان  جسم کو سہلا بھی رہا تھا میری نفرت کی انتہا تھی اورخاموش تھی کہ کچھ بچا ہی نہیں اور یقین تھا کہ اس نے ہی سب کیا ہوگا میرےپہلو میں لیٹا ہوا تھا اورمیرےکپڑے بھی اتاررہا تھا میں نے فیصلہ کرلیا کہ کچھ نہ کرونگی نہ کہونگی اور جلد ازجلد ملک سے باہر جانا ہی بہترہوگا میری شلوار اتاردی اور قمیض کو اوپر کردیا چونکہ میں برا نہیں پہنا ہوا تھا اسلئے میرےبڑے بڑے سکسی بوبز بھی برہنہ تھے


اور اس نے آسانی سے انہیں چوسنا شروع کردیا جب بھائی نے بوبز کو چومتے ہوئے مجھے چمٹایا تو احساس ہوا کہ وہ بھی بے لباس تھا اسکا پینس میری ٹانگوں کے درمیان میری عین سکسی چوت کےلبوں کے قریب مچل رہا تھا مجھے سیدھا کمر کے بل لٹادیا اور میرے پیروں کو نہ جانے کیا سوچ کر چومنے لگا اور میرےپیروں کی ایک ایک انگلی کو زبان سے چاٹ رہا تھا

اسکی گرم گرم زبان اور اسکی محسوس ہوتی گرم گرم سانسیں میرے پیروں میں سرایت کرتی جارہی تھیں پیروں کی گد گدی پورے  جوان سکسی بدن میں پھیل چکی تھی لیکن میں ابھی تک خوف میں ڈوبی ہوئی تھی بھائی میرے پیروں کو چوم رہا تھا اور جا نتی تھی کہ اک بار اس نے کسی بات پر کہا تھا کہ چاہے جان چلی جائے کسی کو ماں باپ کے علاوہ کسی کے پیروں کو ہاتھ تک نہیں لگاونگا

پیروں کوچومتے ہوئے آنکھوں سے لگاتے ہوئے اوپر کی طرف آرہا تھا اور اب میرے اختیار میں نہیں تھا کہ میں خود پر قابو پاسکوں لیکن خاموش تھی اور  سکسی جسم شاید تھرک رہا تھا اس توقیر پر کہ بھائی نے میرے پیروںکو اسقدر ٹوٹ کر چوما تھا اسکی زبان میری  سکسی چوت پر تھی اور میری دونوں ٹانگوں کو پھیلا کر چاٹنے لگا اسکی زبان کا لمس میری سکسی چوت پر غضب ڈھارہا تھا

میں بالکل پاگل ہوچکی تھی وہ سکسی شیو چوت کو چاٹتے ہوئے میری بیک ہول کو بھی چاٹ رہا تھا اس تیزی سے کہ نہ چوت سے زبان ہٹتی نہ بیک سے اسکی کوشش تھی کہ اسکی زبان چوت میں داخل ہوجائے اور گرم گرم کھردری زبان کافی حدتک سکسی چوت کےاندر آرہی تھی بلکہ تہلکہ مچار ہی تھی وہی بھائی جو کمینہ لگ رہا تھا کچھ دیر قبل اب بہت اچھا لگ رہا تھا

پوری توجہ سے وہ چوت اور بیک کو چاٹ رہا تھا اور دانتوں سے کرید بھی رہا تھا میری حالت ناقابل بیان تھی وہ  سکسی چوت کو بھنبھوڑ رہا تھا میری ٹانگوں کے درمیان لیٹا ہوا تھا اور چوت کو کھاتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے  مست سکسی بوبز کو بھی سہلا رہا تھا اسی جزب و مستی میں ڈوبتے ہوئے میری ایک ہلکی سی آہ نکل گئی

وہ کافی دیرتک جگہ جگہ چوستا رہا اور میری خامشی مجھے مارے ڈال رہی تھی اس نے کچھ مزیدنہ کیا اورجلدی سے میری شلوار پہنا کر اور قمیض نیچے کرکے اٹھ گیا اور جاتےہوئے ایک بار پھر میرے پیروں کو اپنی آنکھوں سے بوسے دیتا ہوا باہر نکل گیا

اس امر کا تو یقین تھاکہ اس نے مجھےسیکس نہیں کیا تھا کچھ دیر تک تو میں بے سدھ پڑی رہی اور جب جسم و جاں معمول ہوئے تو پھر سے سوچنے لگی کہ ایک بھائی اور اس نے  آج جو کچھ کیا وہ کس قدر شرمناک تھا کس سے ذکر کروں باپ تو ویسے ہی کاری کرنے کے چکر میں تھا اور جو بھائی یہ سب کچھ کرسکتا ہے وہ کاری بھی کرسکتا ہوگا نہ جانے کب ہلکی سی نیند آئی اور اٹھ گئی بھائی جا چکا تھا ناشتہ جیسے تیسے کیا ملازمہ نے کہا کہ اسکے سرمیں درد ہے دوپہر کو آجائیگی


اپنے کمرے اور بستر کو درست کیا اور سوچا بھائی کے کمرے کو بھی درست کردوں کہ اکثر میں ملازمہ کی غیر حاضری میں کردیتی تھی بسترصحیح کرنے کے بعد نہ جانے کیوں میں اسکی الماری دیکھنے لگی جو میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی اور نہ مناسب سمجھتی تھی سامنے ہی بہت ہی خوبصورت ڈائری رکھی ہوئی تھی  اور ا سکے پہلے پیج پہ ہاتھ سے سکسی لڑکی کی تصویر بنی تھی جو میرے سے ملتی تھی

دل چاہا کہ اتنی اچھی ڈائیری کو دیکھوں اور لیکربھائی کے بیڈ پر بیٹھ گئی ڈائیری بھائی کی تحریروں سے پوری بھری ہوئی تھی اور تاریخ بتارہی تھی کہ کافی عرصہ سے وہ لکھ رہا تھا اور پڑھا تو معلوم ہوا کہ اسی سکسی لڑکی کے بارے میں تھا جس سے اسکو عشق تھا اور کہتا تھا کہ اس سے شادی نہیں ہوسکتی سوچتی تھی کہ کون ہے جو بھائی سے شادی سے انکار کر سکتا ہے

 اسقدر سجیلا جوان، خوبرو اور ایسا خوبرو کہ کئی بار اسے فلموں اور ٹی وی پر کام کرنے کی آفر بھی ہوئی تھی صرف شکل و صورت نہیں بلکہ آواز بھی پاٹ دار مردانہ وجاہت سے بھر پور علاوہ یہ کہ دولت مند پڑھا لکھا اور سیاسی اثر و رسوخ بھی پھر کون شادی سے انکار کرسکتا تھا ڈائری میں  جابجا اپنے کہے ہوئے اس سکسی لڑکی کے بارے سندھی اور اردو کے اشعار بھی تھے

مِیں پڑھے جارہی تھی اور جوں جوں آگے بڑھ رہی تھی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا کہ اس سکسی لڑکی سے اسکی شادی ناممکن ہے کیونکہ وہ لڑکی میِں ہی تھی اسکی سگی  سکسی بہن گزشتہ چند راتوں کا واقعہ نہ ہوتا تو شاید میں رونےلگتی مگر اپنی تعریف اور خود سے عشق کا پڑھکر میں غرور سا محسوس کرنے لگی

میری ذہنی حالت بہت ہی ابتر ہوچکی تھی اور سمجھنے سے قاصر تھی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے ایک ایک لفظ پڑھا اور بھائی کے جنون جو مجھ سے تھا اور  اعتراف کہ وہ کائنات میں صرف مجھے ٹوٹ کر چاہتا ہے کہیں بہن کہیں محبوب کہیں بیوی کی خواہش جو بھی وہ میں ایسے ایسے اشعار میرے بارے میں تخلیق کہ میں بھائی کے ساتھ آسمانوں میں تیر رہی تھی

 ڈائری اپنے پاس رکھنے کو دل چاہا لیکن الماری میں رکھنے لگی اور اپنی الماری سمجھ کر اندر دیکھنے لگی کہ ایک فائل پر نظر پڑی جس پر میرا نام لکھا ہوا تھا اندر سے دیکھا تو میں بے ہوش ہوتے ہوتے بچی فائل میں عدالتی کاغذات تھے اور اسکے مطا بق ہماری تمام زمینیں، بنگلے وغیرہ جو کہ سب بھائی کے نام تھیں وہ سب بھائی نے میرے نام کردی تھیں

اتنی بڑی بات ہوگئی اور میرے ماں باپ کو معلوم تک نہیں ورنہ میرا باپ  مجھے کاری کا نہ سوچتا مِیں نے اسی وقت ماں کو فون کیا اورجا ئیداد کے بارے میں سب کچھ بتادیا کہ انکی مومل کبھی کاری نہیں ہوسکتی ماں رو رو کر بھائی کو دعائیں دینے لگیں میں اپنے کمرے میں آگئی اور ایک نئی سوچ ایک نئی زندگی کہ بھائی نے میری جان بچالی


فرط مسرت میں ڈوبی ہوئی ایک نئی مومل بھائی تو میرا تھا ہی سگا اور پیارا مگراسقدر ٹوٹ کر چاہنے والا کہ جسکا سپنا شاید ہر شخص دیکھتا ہو مگر ایسا پیار ملتا کسی کسی کو ہو سب سے زیادہ خوشی اور اطمینان کہ میری زندگی بچ گئی گوکہ رات کو اسکی  مست سکسی چوما چاٹی سے ہی میرا دل پسیج گیا تھا خاص طور پر جس طرح پیروں کو چوس رہا تھا اور رو رہا تھا لیکن ڈائری کے ایک ایک لفظ میں سچائی اور جنون تھا میں جانتی ہوں کہ جائیداد کتنی اہم ہوتی ہے اور لوگ اسکے حصول کیلئے بہنوں بیٹیوں کو قتل بھی کردیتے ہیں

اور اس نے سینکڑوں ایکڑ زمین میرے نام کردی تھی اور کئی سال پہلے اور مجھے بتایا بھی نہیں اسکے اس عشق نے مجھے وہاں پہنچادیا کہ اب وہ بھائی تو ہے لیکن محبوب ترین بھائی ہے میں نے اپنے کمرے کوخوب اچھی طرح سجایا تھا کہ آج سکون تھا اس سکون و خوشی میں کھانا خود ہی بنایا اور وہ کچھ جو بھائی کو بہت پسند تھا اسکا کمرہ بھی خود ہی سلیقہ سے کر دیا اور بیڈ پر اسکی سب سے پسندیدہ اجرک بھی بچھادی

رات کو بھائی آیا تو وہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوا لیکن اس بات پر خفا بھی کہ ملازمہ کے ہوتے ہوئے یہ سب کام میں نے کیوں کیا  اس نے سندھی ٹوپی اور اجرک پہنی ہوئی تھی اور بہت ہی دلنشیں لگ رہا تھا اس کا بدن ایک لڑکی کی نظر سے بڑا پر کشش اور سکسی مرد لگ رہا تھا اس سے سکسی چدعائی لگوانی کوئی برا فعل نہیں لگ رہا تھا

اس نے میرے لئیے ملازمہ اور ڈرائیور بھی رکھا ہوا تھا اور پابندی سے بینک میں میرے اکائونٹ میں رقم جمع کرتا تھا اتنا کہ مجھے کوئی تکلیف نہ ہواور اب سوچتی ہوں ماضی میں تو احساس ہواکہ وہ کس قدر پیار کرتا ہے اور جب ماں سے کہتا کہ جس سے وہ محبت کرتا ہے اس سے شادی نہیں ہوسکتی تو کتنا کرب ہوتا تھا اس کے چہرے پر کھانا وغیرہ کھا کر وہ کمرے میں چلا گیا

اور میں  نہا دھوکر اپنے کمرے میں آگئی میری عادت ہے کہ میں نہاکر  اپنا سکسی جوان جسم خشک نہیں کرتی ہوں اور گیلے بدن پر ہی کپڑے پہین لیتی ہوں میں بھائی کے کمرے میں چلی گئی جیسے عام طور پر جایا کرتی تھی بھائی ڈائری لکھ رہا تھا اور مجھے دیکھتے ہی ڈائری کو تکیہ کے نیچے رکھدیا میں نے کوئی بات نہ کی بلکہ اسکے ساتھ اسکے بیڈپر بیٹھ گئی

وہ کچھ کہنے والاہی تھا کہ میں نے  اپنا ہاتھ اسکے لبوں پر رکھدیا اور بڑے ہونے پر پہلی بار میں  نے اسکو چھوا تھا اس نے میرا ہاتھ وہیں پر تھام لیا وہ لیٹا ہوا تھا اور میری طرف دیکھ رہا تھا میں نے زرا دیر نہ کی اور اسکے ہونٹوں پر اپنے  رسیلے سکسی ہونٹ رکھدیئے  اسکی آنکھوں میں مسرت کی کرنیں جھلملا رہی تھیں میں اسکے اوپر لیٹ گئی اور دل میں کئی ارمان تھے


اور سینے کے بل اور اسکو اپنےسگے محبوب ترین بھائی کو چومنے لگی اس نے مجھے چمٹا لیا اور جواب مِیں مجھے بھِی پیار کرنے لگا اسکی بھیگی بھیگی تشکر آمیز آنکھوں میں میرا رقص کرتا ہو عکس نظر آرہا تھااسے پیار کرنے دے رہی تھی اور ساتھ ساتھ اسکے ہونٹوں اور گالوں کو چوم رہی تھی اور اسکا  جوان ٹائٹ  تواناپینس نیچے میری ٹانگوں کے درمیان اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا

 کچھ دیر پیار کرتے کرتے میں نے اپنی شرٹ اوپر کردی اور اپنے گیلے گیلے ابھرے ہوئے نوخیز  سکسی بوبز کو اسکے ہونٹوں پر رکھدیا وہ لپک کر انہیں چوسنے لگا میں خوب گوری چٹی نہیں بلکہ سرخ وسپید اور نہایت سکسی جسم کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں والی لمبی لڑکی ہوں بھائی میری  سکسی چھاتیوں کو خوب ڈوب کر چوس رہا تھا

اور میں نے خود ہی لیٹے لیٹے اسکی شرٹ بھی اوپر کردی اور اسکے پتھریلے سینے کو چومنے لگی اور جگہ جگہ کاٹنے لگی اپنی ٹانگوں سے اسکے  مضبوط پینس کو دبار ہی تھی اور اسکی گرمی میری شلوار سے ہوتے ہوئے بھی محسوس ہورہی تھی میں بھا ئی کے پہلو میں لیٹ گئی اور اسے کروٹ کرکے چمٹ گئی وہ بھی مجھ سے چمٹ گیا

اور اسکے برہنہ سینے سے چمٹی میری  سکسی چھاتیاں تمام لمس اپنے اندر سمو رہی تھیں بھائی نے دونوں ہاتھوں سے مجھے چمٹایا ہوا تھا دونوں ہی باری باری ایک وسرے کوسچے تقدس سے چوم رہے تھے بھائی کومیں نے ہٹایا اور سیدھی ہوکر میں اپنی لاسٹک  اور چنٹ ڈلی بیلٹوں والی سکسی شلوار  کو نہایت آسانی سے نیچے کرنے لگی تو بھائی نے خود ہی مجھے برہنہ کردیا

اور خود بھی بے لباس ہوگیا دونوں سگے اور حسین و پرکشش سکسی بھائی بہن ایک دوسرے کے سامنے پہلی بارروشنی میں پیدائشی لباس میں قرب و محبت کو پایہ تکمیل تک پہنچار ہے تھے میری طرح بھائی کا پیٹ بھی کمر سے چپکا ہوا تھا اور انکا مضبوط و جوان سینہ اپنے اندر سمو رہا تھا اس رات میں اور آج بہت فرق تھا کہ آج میں اس سحر میں ڈوبی ہوئی تھی کہ جس مِیں اس دن وہ ڈوبا ہوا تھا

بھائی میرے پیروں کی طرف گیا اور اس سے پہلے کہ وہ اس رات کی طرح بوسے دیتا میرا پیروں کو میں نے اسے بازوں  سے پکڑ لیا اور پہلی بار کہا کہ نہیں نہیں آپ میرے سر کا سائیں ہیں اور اسے اپنے اوپر کرلیا اوراسکے ہونٹوں کو پھر سے چومنے لگی شہد سے میٹھے ہونٹوں کو چوس رہی تھی بھائی کی گرم گرم زبان کو میں لولی پاپ کی طرح چوس رہی تھی

اور اسکی لذت پورے بدن میں پھیل رہی تھی بھائی کا  توانا پینس میری سکسی ننگی  چوت کے ہونٹوں کو مست کر رہا تھا بھا ئی  اسی رات کی طرح میرے گالوں کو چوم رہا تھا اور پیشانی پر اتنی شفقت سے بوسے کررہے تھے کہ اسمیں سگے بڑے بھائی کی الفت محسوس ہورہی تھی پورے جسم کے ایک ایک حصہ کو اپنی زبان سے گیلا کررہا تھا  اور میں بھیگ رہی تھی


اور جب اس دن کی طرح اس نے  میری سکسی جوان مست کنواری شیو چوت کو چاٹنا شروع کیا تو غضب کا لطف میرے بدن میں سے امڈ نے لگا اسقدر مستی کہ میں  نے اپنی دونوں ٹانگوں کے ذریعہ اسکے سر کو بری طرح جکڑلیا اسے اپنی چوت کھانے میں اسکی مدد کررہی تھی وہ چوت کو کھارہا تھا اورمیں اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکی سر کو پکڑ کر اپنے چوت میں داخل کرنے کی   کوشش کررہی تھی

 اس لذت کو ایک عورت ہی سمجھ سکتی ہے جب کوئی خوبصورت اور توانا مرد اس کی چوت کے کنواری ٹائٹ لبوں کو تھوڑا سے ہٹا کے اس کے اندرونی گلابی کناروں پہ اپنی نوکدار شریر زبان سے کسنگ کرتا ہے تب تو پورے سکسی بدن میں آگ بھر جاتی ہے اور انسان ہوش کھو بیٹھتا ہے اس وقت دوست دشمن اور رشتے کی تمیز ختم ہو جاتی ہے

 بس دل کرتا ہے کوئی زور زور سے لن اندر ڈال دے میرا بھی دل کر رہا تھا کہ جلدی سے میری کنواری چوت میں توانا لن داخل ہو کے مجھے لڑکی سے عورت بنا دے ایک سکسی لڑکی جب مرد کے نیچے ہوتی ہو تو مرد کا بھی یہی حال ہوتا ہے جو اس وقت میرے بھائی کا تھا وہ مکمل طور پہ مست ہو چکا تھا اور اس سے صبر نہیں ہو رہا تھا  اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ مجھے اچھی طرح سکس کر کے چدائی کرنا چاہتا تھا لیکن صبر بھی نہیں ہو رہا تھا

 وہ دیوانہ وار میری شیو چوت کو چوسے جا رہا تھا  چامے جا رہا تھا چاٹے جا رہا تھا صدیوں کی پیاس ہو جیسے اور وہ اپنی پیاس ایک دم سے بجھانا چاہتا تھا لیکن اس کی پیاس ختم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی تھی

میں کہ لذت  میں اپنی انتہاوں کو پہنچ چکی تھی اسکے باوجود وہ  چوت کے ساتھ ساتھ بیک کو بھی چاٹ رہا تھا مستی مستی اور وہ بھی بھائی کی مستی نہ خوف نہ ندامت بس محبت اور اپنائیت  اس کی کسنگ اور سکسی  شیو چوت پہ لگنے والی شریر زبان نے میری نس نس میں آگ اور بارود بھر دیا تھا میں ساتویں آسمان  پہ  تھی

میں نے اس سے پہلے اپنے سکسی بدن پہ کسی کو ایک انگلی بھی ٹچ نہیں کرنی دی تھی اور اچھا ہی  ہوا تھا اگر میں نے اس سے پہلے چدائی کرائی ہوتی اور آج میرا بھائی جب میری کنواری چوت کی بجائے پھٹی چوت دیکھتا تو اس کو کتنا صدمہ ہونا تھا لیکن آج میں نے بڑے غرور اور اعتماد کے ساتھ بھائی سے سکس کرایا تھا کیونکہ میں جانتی تھی اس میری کنواری چوت جب ملے گی تو اس کی خوشی انتہا کو پہنچ جائے گی

ہم پاکستاتنی اور ایشیائی بہنیں اپنے بھائیوں کا کتنا خیال رکھتی ہیں ہم ہر قربانی دینے کو تیار ہوتیں ہیں  لیکن ہمیں پھر بھی بہت کم سچا پیار ملتا ہے میرا سکسی بدن بھائی کے لیے ایک تحفہ سے کم نہیں تھا اور میں اپنے بھائی کو اپنے کنوارے سکسی جوان گداز بدن کا تحفہ بڑے خلوص اور عقیدت سے پیش کر رہی تھی بھای لمحہ بہ لمحہ میری سکسی چوت بس چودنے ہی والا تھا اور وہ لمحہ قریب آگیا تھا


بھائی نے چوت کو اچھی طرح  زبان سے تر بہ تر کر دینے کے بعد اپنا لنڈ میری چوت پر رکھا اور اب وہ اپنی سگی چھوٹی سکسی بہن کو بیوی بنا رہا تھا ابھی لنڈ سکسی شیو چوت کے دہانے پر ہی تھا کہ جسم کے رویں رویں میں اک ہیجان سا بپا ہو گیا لنڈ اندر آنے لگا اور بھائی میرے اوپر آگیالنڈ اندر آتے ہوئے درد کی کیفیت طاری ہونے لگی اور مگر لطف و مستی درد پر بھاری تھی

بہت بڑا اور سرخ ترین لنڈ رفتہ رفتہ اندر آرہا تھا اور درد بڑھتا جارہا تھا ویسے تو شاید درد ناقابل برداشت ہوتا مگر بھائی کا لنڈ تھا اسلیئے اپنے خون کا ہی تو تھا سو بہت ہی بھلا اور اپنا اپنا لگ رہا تھا لنڈ اندر آتے آتے ایک مقام پر ٹھہر گیا تھا اور مجھے صاف محسوس ہورہا تھا کہ رکاوٹ سی ہے جو لنڈ کو روک رہی تھی جانتی سب تھی کہ یہ معروف سکسی  پردہ ہے جو کنوارے پن نہیں بلکہ بلوغت کی نشانی ہوتی ہے

بھائی نے میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لیا ، میں نے اسکی کمر کو دونوں ہاتھوں سے تھاما ہوا تھا ، اپنی ٹانگوں کو چھت کی طرف کیا ہوا تھا اوربھائی ذرا پیچھے ہٹا معلوم تھا کہ بھائی وہ پہلا اورآخری شخص ہےجو اس منزل تک پہنچے گا بھائی نے ایک ضرب شدید سے اپنے لنڈ پر اپنی پوری قوت کو مرکوز کرتے ہوئے دھماکہ کے انداز میں پردہ کو چاک کردیا

اور میرے کرب و درد کا اندازہ کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے میری پیشانی اور آنکھوں کو بوسے دینے لگا میری  سکسی چوت سے مادہ جو کہ لہو تھا بہتے ہوئے محسوس ہورہا تھا درد میں بھی کمی آگئی اور اب بھائی نے لنڈ کو اندر باہر کرنا شروع کردیا تھا  بھائی نے مجھے بالغ کر دیا تھا اور میں بھی اچھل اچھل کر بھائی کو چود رہی تھی

اسکے جسم کی مضبوطی اورپیارمیں ڈوبی ہوئی میں اپنی سکسی چوت سے اسکے لنڈ سے کھیل رہی تھی اور چوت سے اسکےلنڈ کو لپکنے اورجھپٹنے  کا کھیل کھیل رہی تھی اسی وارفتگی اور عظیم الشان جسمانی اور روحانی لذت وکیف میں آخر ہم دونوں نے ایک ساتھ جسم و روح کا پاکیزہ عرق چوت کے اندر ہی نچھاور کرتے ہوئے سگے بھائی کے لنڈ اورچوت کو غسل حقیقی کی معراج عطا کردی

نیچے بچھی ہوئی اجرک میں بلوغت کا لہو اور سگے بھائی بہن کا دودھ کی طرح سپید ملاپی مادہ بکھرا ہوا تھا  اجرک سندھ کی تاریخی رنگیں شال کوکہتے ہیں کو آج بھائی بہنوں نے اسے تاریخی بنادیا تھا اجرک کے رنگوں   میں بلوغت کے لہو اور بھائی بہن کے ملاپ سے پیدا ہونے والے سفید ما ئع نے عجیب سے نقش و نگار تخلیق کردئیے تھے

میں نے نہ ڈائری کا ذکر کیا نہ جائیداد کی منتقلی کا اور نہ ہی نیند کی گولیوں والے واقعہ  کا وہ اب میرا شوہر اور سگا بھائی ہے اور میں اسکی سگی لاڈلی بیوی اوربہن  ہوں باپ کا انتقال ہوچکا ہے ہمارا ایک بچہ ہے اور ماں ہمارے ساتھ ہی رہتی ہیں انہیں ہم نے کچھ نہیں کہا لیکن انکو اندازہ ہے اور ہم سب بے حد خوش ہیں میں ہرسال انیس نومبر کو خوب تیاری کرکے اجرک بچھاتی ہوں اور بہت اہتمام سے سیکس کرتے ہیں چونکہ پہلی بار ہم نے اجرک پر ہی سیکس کیا تھا اور اسی دن کہ جب سندھی ٹوپی اجرک دن منا یا جاتا ہے وہ دن ہم بھولتے نہیں کہ پورے سندھ میں یہ دن منا یا جاتا ہے

Post a Comment

0 Comments